Life History of Talib Hussain Dard in Urdu

Baba Talib Hussain Dard Biography

Talib Hussain Dard whole journey from birth to death, A man of good quality great human being very kind and down to earth person, people called them baba for their respect and against service of punjbi language. may allah pak grant him high rank in jannah.


history of talib hussain dard in urdu

دردشناس ۔ طالب حسین درد(شہنشاہِ جْوگ)

تپتے ریگستان میں خیمے شامیانے اور کناتیں لگانے کا سلسلہ تیزی سے جاری تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک عارضی شہر کھڑا کر دیا گیاجھلسا دینے والی گرم صحرائی ہوائیں ۔
اوپر سے ساون کا حبس ذدہ مہینہ ۔ مکین علاقہ گھروں میں دبکے ہوئے تھے تاہم اس شام کو سب نے اس عارضی بستی کا رخ کرنا تھا بچے بڑے ضعیف جوان آگ برساتے سورج کے ڈھلنے کے بے تابی سے منتظر تھے

۔72-1971 کی دہائی ہے
اور یہ قصہ ہے نور پور تھل کا ۔ سید بابا سخی سیدن شاہ بخاری کا سالانہ میلہ سر پر آن پہنچا تھا اور باقائدہ اس شام میلے کی افتتاحی و دعائیہ تقریب منعقد ہونا تھی ۔ تبھی تو علاقہ بھر کے لوگ پرجوش تھے ۔ آتش قہر برساتا سورج ڈھلا ۔ شام ہوئی تپتی ریت کو قرار آیا ہلکی ہلکی ہوا بھی گویا رینگنے لگی تھی۔ ایسے میں اک انبوہ کثیر گھروں سے برآمد ہوا اور میلے کی جانب لپکا ۔ لاؤڈ سپیکر پوری قوت سے چنگھاڑنا شروع ہوگئے کان پڑی آواز سنائی دینا محال ہوگیا ۔

تاہم لوگ خوش تھے بہت ہی خوش ۔یہ تین دن ریگستان میں واقع اس شہر کے باسیوں کے لئے کسی عید سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے ۔ میلہ میں منیاری ہوٹل ۔ شربت ۔مٹھائیاں ۔ جادوگروں کے کرتب کے علاوہ متعدد اقسام کی عارضی دکانیں خریداروں کے لئے سج جاتیں ۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ۔عوامی ٹھیٹر ۔میلہ بینوں کی توجہ سب سے زیادہ کھینچتے ۔ ٹھیٹر کے نام سے جو طمانیت میلہ بینوں کو حاصل ہوتی اس کا لفظوں میں اظہار ناممکن ہے ۔ ایسے میں لوگوں کا اک گروہ اک تھیٹر کے سامنے کھڑا اندازہ لگانے میں مصروف تھا کہ گلو کار کون ہے اس کا نام کیا ہے کہاں سے ھے سوالات بہت تھے تاہم جواب ندارد ۔

سامنے ھاتھ سے بنی گلوکار کی بڑی سی تصویر آویزاں تھی ۔ لمبے بال کسی قدر گھنگریالے بالوں کی اک چھوٹی لٹ ماتھے پر ۔ چہرہ گول ۔ رنگ گہرا سانولا تیکھا نک نقشہ ۔پہلی نظر میں یہ صورت شائقین کے دلوں میں گھر کر گئی ۔ چونکہ ناخواندگی کا دور دورہ تھا لہذا نام معلوم ہونے میں تھوڑا وقت لگا ۔

کسی کونے سے اک شخص نے گلوکار کا نام طالب حسین درد بتایا اور اگلے چند لمحوں میں اک کونے سے دوسرے کونے تک یہ نام سب کی زبانوں پر تھا ۔ بہرحال ٹکٹیں بکنا شروع ہوئیں تو درد صاحب بھی اونچے چبوترے پر ٹکٹیں فروخت کرنے والے کے پیچھے پیڑھی رکھ کر اس پر براجمان  ہوگئے ۔ قسمت کی دیوی دور کھڑی مسکرا رہی تھی ۔

وہ رات اس نَو وارد گلوکار کی زندگی بھر کا اثاثہ بن گئی ساری ریاضت سمٹ کر اس ایک لمحے میں مقید ہو گئی۔ علاقائی زبان میں گلوکاری کی اس نئی جہت نے طالب حسین درد کو بام عروج پر پہنچادیا پنجاب کے علاقائی گویّوں میں اک اور حسین اضافہ ہوگیا۔ جسے عوام کی اکثریت نے دل وجان سے قبول کر لیا ۔

اس کے بعد ھمیشہ طالب حسین درد کا سفر بلندیوں کی طرف گامزن رہا کبھی ناکامی کی اک پرچھائی کا بھی سامنا نہ کرنا پڑا عزت دولت شہرت ان کی حیات کا نصیب بن گئیں۔

۔ 1955 میں خانوآنہ ضلع جھنگ میاں لعل کے گھر اک نومولود نے آنکھ کھولی ۔ نام طالب حسین تجویزکیا گیا جوبعد ازاں گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھنےپر درد کے اضافے سے طالب حسین درد ہو گیا تاہم یہ بھی اک حقیقت ہے کہ مرتے دم تک شائقین موسیقی اور درد صاحب کے عقیدتمندوں نے انہیں پیار محبت اور اپنائیت سے ھمیشہ طالبُو کے نام سے پکارا ۔

شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد ان کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ ہو گیا اور خان صاحب کے لقب سے پکارے جانے لگے ۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم خوشاب کے نذر حسین ڈھوکڑی سے حاصل کی ۔ استاد شفقت خان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے ۔ طالب حسین درد نے پنجاب بھر کے مشہور میلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ وقت کے ساتھ حالات نے کروٹ بدلی دنیا میں مزید جِدّت آئی ۔

ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ نے خان صاحب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ آئے روز خان صاحب کا نئے سے نیا پروگرام مارکیٹ میں آ رہا تھا اور لوگ دیوانہ وار خرید اور سن رہے تھے ۔

ریکارڈنگ کمپنیوں کے نمائندے ان کے آگے پیچھے پھرنے لگے ۔
اور پھر جیسے بھونچال آگیا ہو ۔

ذلفاں دے کھول تالے
قیدی رہا چا کر ۔۔۔۔۔

کبھی کسی لوک گلوکار کو نہ سننے کی قسم اٹھانے والے بھی اس گیت کو سننے پر مجبور ہوگئے ایسے مجبور کہ پھر اسے بار بار سنا ۔ اس گیت نے اک عرصہ تک شائقین موسیقی پر اک سحر سا طاری رکھا ۔

خان صاحب نے چوٹی کے شاعروں کا کلام گایا ۔ عامیانہ کلام کو وہ رَد کر دیتے تھے ھمیشہ اپنے علاقے میں بولی جانے والی پنجابی کو ترجیح دی اور آخری دم تک اپنےاس اصول پر کاربند رہے ۔پنجابی زبان کے معروف شعراء کرام اسد اعوان ۔غلام محمد درد ۔ حیات بھٹی ۔ گلزار گوندلوی ۔ جاوید ۔ صابر سودائی ۔ اسمعیل سچل ۔ ملک یاسین ۔ افضل عاجز ۔ را منور سائیں ۔ثمر بھروانہ ۔ شاکر شجاع آبادی و دیگر کے کلام نے ان کی گائیکی کو چار چاند لگا دیے ۔

پنجاب کے اکثر اضلاع میں شادیوں کی تقریبات خان صاحب کا پروگرام کرا کر رنگین اور یادگار بنائی جاتیں ۔طالب حسین درد کا شمار اُن چند گلوکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی گائیکی سے پنجاب اور پنجابی زبان کو امرکر دیا ۔

انہوں نے مالکونس ایمن کلیان بھیم درباری بھیرویں پہاڑی اور نجانے کس کس راگ کو الاپا اور گایا مگر جوگ کا بادشاہ کہلایا ۔ے۔ طالب صاحب ایک مست فقیر شخص تھے انہوں نے اپنی منفرد گائیکی سے تھل کے صحراؤں کو مترنم کئے رکھا۔ ان سے لوگوں کی عقیدت و محبت ایسی تھی کہ لوگ انہیں بابا طالب حسین درد کے نام سے مخاطب کرتے تھے وہ واقعی ایک. بابا جی. تھے۔ جوگ میں گاتے ہوئے وہ سننے والوں کے دلوں پر ایک تعویز کی طرح اثر کرتے تھے۔

۔1994-95 میں مون کیسٹ ھاؤس کے جاری کردہ البم نے پانی میں آگ لگادی ۔

اسیں ماڑے سرکار تسیں چنگے او
ساڈا کی اے تکرار ۔ تسیں چنگے او

یہ گیت بعد ازاں PTV نے اک خصوصی تقریب منعقد کر کے ریکارڈ کیا اور ھمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ۔ یہ گیت اب پاکستان ٹیلی ویژن کی ویڈیو لائبریری اور آواز خزانہ کا حصہ ہے ۔

بڑھتی عمر کے باوجود خان صاحب کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔

۔ 1999 کا سال آ پہنچا۔ خان صاحب نے اپنے نوخیز فرزندارجمند کو گائیکی کی دنیا میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ۔ عمران طالب اور خان صاحب کے مشترکہ البم نے غضب ڈھا دیا اس البم کی ریکارڈ توڑ فروخت ہوئی چونکہ عمران طالب اور خان صاحب کی آواز میں بہت مماثلت ہے لہذا خان صاحب محفلوں میں اس کا برملا اظہار کرتے کہ میں نے اپنی زندگی میں ھی آپ کو اک نیا طالب حسین درد دے دیا ہے ۔

عمران طالب نے 17 سال خان صاحب کے ساتھ مل کر گلوکاری کی اب ان کے کچھ انفرادی البم بھی ریلیز ھو چکے ھیں ۔ خان صاحب کو قدرت نے دل کھول کر نوازا انہوں نے بھی اس کا مکمل پاس رکھا بڑا پن اور عاجزی ان کا شیوہ تھا ۔ وہ عزت دولت شہرت سے مالامال ہونے کے باوجود اپنے آبائی علاقہ میں مقیم رہے ۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود خانوآنہ سے نقل مکانی کرنے کا سوچا بھی نہیں ۔

خان صاحب کو نیزہ بازی سے خصوصی شغف تھا انہوں نے   اپنے ڈیرہ پر بڑی اعلیٰ نسل کے گھوڑے پال رکھے تھے ۔ اپنے گاؤں میں ہر سال باقائدگی سے میلہ لگواتے جس میں ہر صورت اپنا پروگرام بھی رکھتے ۔ان گھوڑوں کی دیکھ بھال دوسرے بیٹے حسنین طالب کے ذمہ ہے ۔ پنجاب بھر کے میلہ جات میں یہ گھوڑے نیزہ بازی اور گھوڑا ڈانس میں حصہ لیتے ھیں۔ ان کے تیسرے بیٹے ضیغم عباس اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ھیں ۔

جس ذی روح نے دنیا میں آنا ہے بلاآخر اس نے اس دنیائے رَنگ و بُو کو چھوڑ کے جانا بھی ہے ۔ قدرت کا یہی حکم ہے یہی اصول ہے ۔ 2019 آن پہنچا خان صاحب اب ناتواں ھو چکے تھے۔گو کہ حوصلہ نوجوانوں جیسا قائم تھا ۔ تاہم مَشیًت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے ۔

آہ۔ ایک عظیم دور کا خاتمہ ہوگیا۔ ۔ ۔

خان صاحب کا شمار اُن معدودے چند گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ساری زندگی خالص علاقائی پنجابی میں گلوکاری کرکے لاکھوں /کروڑوں لوگوں کے دل جیتے۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی میں 20 ہزار کے لگ بھگ گیت اور دوہڑے گائے۔

تقریباً 50 سالہ عظیم گائیکی کا 1971میں شروع ہونے والا  یہ سلسلہ آخرکار 17مارچ 2019 کو اختتام پذیر ہوگیا۔

خان صاحب 13مارچ2019کو رات تقریبا آٹھ بجکر تیس منٹ پر گھر آئے اور سو گئے۔ رات تقریبادو بجے جاگے اور کھانا کھایا ، کھانا کھانے کے بعد پھر سو گئے ۔  14مارچ2019 کو صبح سات بجے باتھ روم جاتے گر پڑے۔ انہیں الائیڈ ہسپتال فیصل آباد لے جایا گیا، وہاں کچھ ٹیسٹ وغیرہ کئے گئے جس کے بعد خان صاحب کو نیشنل ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خان صاحب کو دائیں سائید پر فالج کا حملہ ہوا ہے ۔

اُس وقت تک خان صاحب بلکل ہوش و حواس میں تھے جو بھی آدمی اُنکے بیڈ کے پاس جاتا اُس کو پہچان لیتے اور آنکھوں کے اشارے سے بات بھی کرتے تھے۔خان صاحب رات تقریبا 12 بجے کے قریب نیند کی آغوش میں چلے گئے تب اہل خانہ اُن کے کمرے سے باہر آگئے صرف ایک انکا بھانجا محمد سبطین اُن کے پاس موجود رہا ۔ 15مارچ 2019کی صبح پانچ بجے خان صاحب کو دوسرا شدید ترین فالج کا اٹیک دائیں سائیڈ پر ہوا، جس سے خان صاحب کا پھپھڑہ زخمی ہوگیا اور اُس میں پانی بھرنے لگا۔

خان صاحب کا بلڈ پریشر 184تک پہنچ گیا اور شوگر202پر تھی۔ ڈاکٹرز خان صاحب کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے مگر خان صاحب کی صحت ہر گزرتے لمحات کے ساتھ خراب سے خراب تر ہو رہی تھی۔ 15مارچ  شام کو ڈاکٹرز نے کہا کہ آپکا مریض انتہائی خطرناک حالت میں ہے لہذا  ہمیں ایمرجنسی میں شفٹ کرنا ھو گا ۔ رات ساری رات خان صاحب نیشنل ہسپتال کی ایمرجنسی میں رہے تاہم معاملہ بگڑتا چلا گیا۔

16مارچ کی صبح نیشنل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ہدائیت کی کہ آپ مریض کو عزیز فاطمہ ہسپتال (فیصل آباد) لے جائیں شاید اب انکو وینٹی لیٹر پر رکھنا پڑے۔  عزیز فاطمہ ھسپتال میں خان صاحب کو ICU میں منتقل کر دیا گیا  شام کو تقریباچھ یا سات بجے کے قریب اُنکو وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا۔ ایک جاننے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ خانصاحب کی آنکھیں اور باڈی ڈیڈ ہو چکی ہے البتہ ان کی سانسیں چل رہی ہیں اور اِن کے بچنے کی امید اب کم ہے ۔ بس دعا کریں ۔

عمران طالب کی ایک خواہش تھی کہ میں اپنے بابا کے پاؤں کو آخری بار بوسہ دینا چاہتا ہوں لیکن ھسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز کی سخت ہدایات کی وجہ سے کسی کو بھی ICU میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ نم آنکھوں کے ساتھ بار بار اصرار پر آخر ایک رحم دل آدمی نے عمران طالب کو چند سیکنڈ کے لیے بابا جی کے پاس جانے کی اجازت دے دی اور عمران طالب کی والد صاحب کے پاؤں کو بوسا دینےکی خواہش پوری ہوگئی۔ رات دس بجے سینیئر ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور کہا کہ اب خان صاحب کچھ بہتر ہیں ادھر اتنا رش نہ لگائیں صرف ادھر دو آدمی ادھر رہیں تاکہ ھسپتال انتظامیہ کو کوئی چیز منگوانے میں دقت نہ ہو ۔۔

اب کوئی دوا کوئی دعا کار گر نہ رہی ۔ وقت پورا ہو چکا تھا۔ ملک عدم سے بلاوہ آچکا تھا ۔
آہ ۔۔۔  17مارچ 2019 کی صبح 7:30 خان صاحب دنیا فانی سے کوچ کر گئے ۔ پچاس سال تک دنیائے موسیقی کا تابناک ستارہ بن کر چمکنے والا فضاؤں کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔۔
طالب حسین درد کی نمازجنازہ خانوآنہ ضلع جھنگ میں ادا کی گئی اور انہیں وہاں کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ نمازجنازہ میں ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ھزارھا افراد نے شرکت کی ۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے ۔

Post a Comment

0 Comments

Allama Iqbal Poetry